اعضاء کا صدقہ کیجئے

0
9808

محمد وقار بھٹی

“امی وقار بھائی سے کہیے کہ کہیں سے مجھے ایک کڈنی دلوا دیں۔ میں مرنا نہیں چاہتی، اگلے مہینے میری شادی ہے۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے کہیں سے گردہ دلوا دیں”

یہ وہ الفاظ تھے جو میرے کانوں نے نہیں سنے مگر مجھے اس جواں سال لڑکی کی والدہ نے سنائے جو اپنی شادی سے ایک مہینہ پہلے کرونک کڈنی ڈیزیز

Chronic Kidney Disease

کے ہاتھوں زندگی ہار گئی۔

میرے دور کے سسرالی رشتہ داروں میں یہ دو بہنوں میں سے ایک گردوں کے مرض میں مبتلا تھی، جیسے تیسے کر کے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، انہی دنوں ڈاکٹرز نے ڈائلیسس کروانے کا کہا، منگنی ہو چکی تھی اور اس کی شادی ہونے والی تھی مگر ایک مہینہ پہلے گردوں کا ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کے باعث دنیا سے سدھار گئی۔

آہ

عزیزان من

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ اعضاء کے ناکارہ ہو جانے بشمول دل کے ناکارہ ہونے، گردوں کے خراب ہونے، جگر کے کام بند ہونے اور کئی دیگر اعضاء کے ناکارہ ہو جانے کے باعث جانبحق ہو جاتے ہیں۔

مگر دوسری طرف، ہمارے پڑوسی ایران سمیت کئی عرب ممالک اور دنیا کے دیگر مہذب ممالک میں بشمول مشرک اور کافر ہندوستان میں ایسے لوگوں کی جان بچ جاتی ہے کیونکہ وہاں پر مرنے والے افراد از خود یا ان کے رشتہ دار ان کی موت کے بعد ان کے اعضاء عطیہ کر جاتے ہیں۔

ایک اور دلچسپ حقیقت بیان کرتا ہوں

میں ابھی تک اس شخص سے نہیں ملا لیکن کراچی کا رہنے والا ایک دوست ہندوستان کے کسی شخص کا دل اپنے سینے میں لیے اس وقت زندہ ہے اور یقینا اس کے لیے دعا گو ہے۔

اس نے مجھے نہیں بتایا لیکن مجھے نہ جانے کیوں یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں دھڑکنے والا دل کسی ہندو کا ہے۔ نہ جانے کیوں؟

مسئلہ یہ ہے کہ مولوی صاحب نے یہ بتایا ہے کہ مسجد کا چندہ دینا ثواب کا کام ہے، مدرسے کو فنڈ کرنا ثواب کا کام ہے، عمرہ جو کہ فرض نہیں وہ کرنا ثواب کا کام ہے، مگر مولوی صاحب کے نزدیک

سورہ المائدہ کی وہ آیت کوئی معنی نہیں رکھتی

جس میں رب العزت فرماتا ہے

مفہوم

جس نے کسی ایک انسان کی جان لی سوائے قصاص یا فساد فی الارض کے اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا

اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔

اب دیکھیے پاکستان میں ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ، دل، گردے، جگر، پھیپھڑے، اور دیگر اعضاء کے ناکارہ ہونے سے مر جاتے ہیں۔

دوسری طرف سینکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوجوانی میں حادثات میں برین ڈیڈ ہو جاتے ہیں جن کے اعضاء نکال کر ان مریضوں کو لگا کر طویل عمر تک زندہ رکھا جا سکتا ہے۔

اور یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ ایسا دنیا کے ہر مہذب بلکہ ہندوستان جیسے غیر مہذب ملک میں بھی ہوتا ہے جہاں پر نہ صرف وہ اپنے شہریوں کو مرنے والوں کے اعضاء لگاتے ہیں بلکہ اپنے دشمن پاکستانیوں کو بھی یہ اعضا لگانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔

اب مسئلہ پاکستان کا ہے جہاں پر آپ چاہیں جتنے ہی روشن خیال اور خدائے واحد کے قریب کیوں نہ ہو جائیں، مولوی صاحب آپ کو نیک کام کرنے سے ضرور روکیں گے۔

برسبیل تذکرہ، سری لنکا کے کافر بدھوں اور ہندوؤں کی عطیہ کی گئیں سینکڑوں آنکھوں کی وجہ سے کئی پاکستانیوں کی آنکھوں کی روشنی بحال ہے، جنہیں ان کے اپنے خاندان والوں نے اپنے مرنے والے عزیز و اقارب کی انکھیں دینے سے انکار کر دیا تھا۔

تو ہم تو یہی عرض کرتے رہیں گے

اعضاء کا صدقہ کیجئے،

مولوی صاحب کے بجائے قرآن کو مانیے جو کہتا ہے کہ

مفہوم

یہ کہتے ہیں کہ دوبارہ اٹھایا جانا یا زندہ کیا جانا کیسے ممکن ہے حالانکہ ہم ہی ہیں جس نے ان کو پہلے بغیر کسی چیز سے جب یہ کچھ نہیں تھے پیدا کیا تھا۔

وما علینا البلاغ